Posts

Showing posts from December, 2016

۔16دسمبر ۔۔ایک دن، دوسیاہ راتیں۔۔.

Image
۔16دسمبر ۔۔ایک دن، دوسیاہ راتیں۔۔. سقوط ڈھاکہ اور سانحہ پشاور۔۔۔تاریخ کا سبق یا وقت کی نصیحت؟ قوموں کی تاریخ میں دکھ کے کچھ لمحات یوں ساکت ہوجاتے ہیں کہ جنہیں نہ جھٹلایا جاسکتا ہے نہ مٹائے مٹتے ہیں۔مملکت خدادا پاکستان کی تاریخ میں 16دسمبر بھی ایک اندوہناک درد کی ان مٹ داستاں بن چکا ہے۔16دسمبراورخود اس دن کے حالات و واقعات میں 16کا ہندسہ بھی نحوست کے سائے کی طرح چھایا دکھائی دیتا ہے۔  چلیں تاریخ کے یہ چند اواق پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ ان سیاہ راتوں میں شمعیں کس نے گل کیں اور کس کی چیخیں سناٹے کی طرح جامد ہوگئیں؟ اگست 1947میں قوم کی زندگی میں بہار آئی اور آزادی کی نعمت میسر آئی مگر جیسا کے پچھلے کالم میں ذکر کیا گیا کہ تقسیم ہند میں آزادی ادھورے فارمولے کے تحت دی گئی۔ مشرقی پاکستان بھی ان ہی علاقوں میں سے ایک تھا جو سن 1954تک آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں بن سکا ، اور پھر 22نومبر 1954کو پاکستان کے ایک صوبے کی حیثیت اختیار کرلی۔مگر وہ دشمن جس نے اس عرصے میں درجنوں ریاستوں پر فوج کے ذریعے قبضہ کرکے اسے ہندوستان کا حصہ بنالیا تھا اسے یہ ہضم نہ ہوا اور ریشہ دو...

آہ!!! جنید جمشید۔۔۔۔ اور دل دل پاکستان کے تار ٹوٹ گئے

Image
آہ !!!  جنید جمشید۔۔۔۔ اور دل دل پاکستان کے تار ٹوٹ گئے 3ستمبر کے ایک خنک شام میں پیدا ہونیوالا بچہ، ایک ہوا باز باپ کے گھر کا ستارہ بن کرآیا، ہوا میں اُڑنا اس کا خواب تھا، اور اسی خواب کی تعبیر اسے ہوا میں اُڑا کے ہم سے بہت دور لے گئی۔ صرف اس ایک سطر میں جنید جمشید کی پوری زندگی کا خلاصہ موجود ہے۔ ابتدائی تعلیم مدینہ منورہ کے نواح میں واقع علاقہ ینبوح میں حاصل کی اور زندگی کے آخری ایام اس مدینے والے کے عشق کے گیت گاتے گزارے ۔ جنید جمشید بننا تو پائلٹ چاہتے تھے، کیونکہ خواب ہوامیں اُڑنے کا تھا مگر زیست نے انجنیئر بنا دیا، کچھ عرصہ میں یہ کام بھی نہ بھایا اور گیت گانے شروع کئے، وہیں سے یہ انمول ہیرا جوہریوں کے نظروں میں آگیا اور پھر دنیا نے پاک وطن کے سبز شرٹ میں پہنے ایک گلوکار کو دل دل پاکستان، جان جان پاکستان گاتے ہوئے سنا ۔ بس پھر گیا تھا قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور پھر موسیقی اور گلیمر کی رنگین دنیا میں بلندیوں کو چھونے لگے۔  دنیا کا ماننا ہے کہ موسیقی اور فن کی دنیا ایک ون وے ٹریفک کے طرح چلتی ہے اس راستے پر جانے کے راستے تو بہت مگر شاید واپسی کا...