آہ!!! جنید جمشید۔۔۔۔ اور دل دل پاکستان کے تار ٹوٹ گئے
آہ!!! جنید جمشید۔۔۔۔ اور دل دل پاکستان کے تار ٹوٹ گئے
3ستمبر کے ایک خنک شام میں پیدا ہونیوالا بچہ، ایک ہوا باز باپ کے گھر کا ستارہ بن کرآیا، ہوا میں اُڑنا اس کا خواب تھا، اور اسی خواب کی تعبیر اسے ہوا میں اُڑا کے ہم سے بہت دور لے گئی۔ صرف اس ایک سطر میں جنید جمشید کی پوری زندگی کا خلاصہ موجود ہے۔ ابتدائی تعلیم مدینہ منورہ کے نواح میں واقع علاقہ ینبوح میں حاصل کی اور زندگی کے آخری ایام اس مدینے والے کے عشق کے گیت گاتے گزارے ۔ جنید جمشید بننا تو پائلٹ چاہتے تھے، کیونکہ خواب ہوامیں اُڑنے کا تھا مگر زیست نے انجنیئر بنا دیا، کچھ عرصہ میں یہ کام بھی نہ بھایا اور گیت گانے شروع کئے، وہیں سے یہ انمول ہیرا جوہریوں کے نظروں میں آگیا اور پھر دنیا نے پاک وطن کے سبز شرٹ میں پہنے ایک گلوکار کو دل دل پاکستان، جان جان پاکستان گاتے ہوئے سنا ۔ بس پھر گیا تھا قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور پھر موسیقی اور گلیمر کی رنگین دنیا میں بلندیوں کو چھونے لگے۔
دنیا کا ماننا ہے کہ موسیقی اور فن کی دنیا ایک ون وے ٹریفک کے طرح چلتی ہے اس راستے پر جانے کے راستے تو بہت مگر شاید واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے مگر جنید جمشید نے یہ بھی کر دکھایا،وائٹل سائنز کے نام سے بننے والا موسیقار گروپ ٹوٹ گیا اور اس کے تار بکھر گئے ، جنید جمشید نے کچھ عرصہ انفرادی طور پر موسیقی کو ہمسفر بنائے رکھا مگر پھر ایک دم وہ لمحہ ان کے زندگی میں آگیا جب جنید جمشید کے یہ الفاظ فضاؤں میں گونج رہے تھے
میرا دل بدل دے ، میرا دل بدل دے ،
غفلت میں ڈوبا دل بدل دے،
ہوا و حرص والا میرا دل بدل دے
خدایا فضل فرما، دل بدل دے
اور پھر ان کا دل بھی بدل گیا، ان کی شخصیت بھی بدل گئی، لباس، وضع، گفتار، اطوار، عادات، نظر، فکر، لگن سب بدل گیا۔ وہ نہ صرف خود بدل گئے بلکہ غفلت میں ڈوبے انسانوں کو بدلنے کا بیڑا بھی اُٹھا لیا۔ شہر شہر قریہ قریہ سفر ان کا مقدر ٹھہرا ۔ لوگوں کو اللہ سے محبت، اس کے رسولﷺ سے لگاؤ کے طرف لانا شروع کردیا اور یہ سلسلہ ان کے آخری سفر اور آخری سانس تک جاری رہا۔
کس قدر نفیس انسان تھے ، کتنے ملنسار تھے اس کی ایک بہت بڑی مثال ان کی زندگی کا حصہ بنی رہی۔ موسیقی، گلیمر، کھیل کی دنیا میں بہت نام اور دوستیاں تھیں مگر جب اللہ کی راہ میں لو لگا لی تب بھی کسی سے رشتہ ،د وستی نہیں توڑی بلکہ دنیا نے دیکھا کہ یہ دوستیاں اور رشتے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگئے۔ یہ وہ اخلاص کا سبق تھا، یہ وہ انسانیت کا درس تھا جو نبی کریم ﷺ نے دیا کہ پیغام ضرور دو مگر اپنا عقیدہ ، مذہب دوسروں پر لاگو مت کرو کہ کہیں لوگ دین اسلام سے بدظن نہ ہوجائیں۔ یہی خاصہ تھا جنید جمشید میں، سب سے دوستی تھی سب سے پیار تھا مگر نہ اپنا راستہ چھوڑا نہ دوسروں سے زبردستی کی، نہ ہی نفرت کا اظہار ، کہ تمہارا عقیدہ مختلف ہے لہذا تیرے میرے راستے جدا۔
روزی روٹی کا ایک ذریعہ یہ بنایا کہ آج ملک اور بیرون ملک میں ان کے نام کے لباس خوب بکتے ہیں، خوشبو کی طرح پیارا شخص خوشبو کے کاروبار سے بھی منسلک رہا اللہ کریم کے ذات نے بہت دیا وہ خود کہتے تھے کہ مجھے اللہ نے اس رستے میں اتنا دیا کہ جتنا شاید میں موسیقی سے نہ کما سکتا، اور بارہا کہتے تھے میں اس زندگی میں بہت سکون محسوس کرتا ہوں۔
اب کی بار بھی وہ اللہ کے راستے میں تبلیغ و وعظ کے لیے چترال گئے، ان کے آخری تصاویر میں بھی انہوں نے اللہ کی بنائی ہوئی خوبصورت وادیوں کی تعریف لکھی اور لکھا کہ وہ اللہ کے کام سے یہاں آیا ہوں۔ خوشی اور خوش مزاجی ان کے چہرے سے ہر وقت چھلکتی رہتی تھی اور پھر وہ قیامت کا لمحہ بھی آگیا جب قوم نے ایک المناک خبر سنی کہ ہوا باز کے گھر پیدا ہونے والا، فضاؤں میں اُڑنے کا خواب دیکھنے والا فضا ئی سفر ہی میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وائے رے قسمت 7دسمبر کی وہ شام، سب کو افسردہ کرگئی
شاید ایسی ہی اک شام پر انہوں نے اپنے زمانہ عروج میں ایک گیت بھی گایا تھا
یہ شام پھر نہیں آئے گی
اس شام کو، اس رات کو
ٓآؤامر کرلیں، امر کرلیں
سبز ٹی شرٹ سے شہرت کے دنیا میں داخل ہونے والا شخص خاکی لباس اوڑھے سادگی اور سیدھی راہ کا سبق دیتے دنیا سے چلا گیا اور ہمارے لیے بہت سی انمول یادیں امر کرگیا
ٹھٹھرتی ہوئی شبِ سیاہ، اور وہ بھی طویل تر
محسن ، ہجر کے ماروں پر، قیامت ہے دسمبر
Comments
Post a Comment