ڈینگی مہم۔۔۔یا کام نہ کرنے کا بہانہ۔۔Dengue and Punjab Government's Politics

ڈینگی مہم۔۔۔یا کام نہ کرنے کا بہانہ


دنیا بھر میں عموماً چار موسم آتے ہیں مگر پاکستان میں ایک اور موسم بڑی تواتر سے آرہا ہے اور وہ ہے ڈینگی کا موسم۔ یہ ایک ایسا موسم ہے جس کا نہ کوئی وقت مقرر ہے نہ جگہ مگر پنجاب میں ڈینگی کا موسم سدا بہار پھول کی طرح ہے۔ پنجاب کی انتظامیہ میں عوام کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور وہ ہر وقت عوامی خدمت کے نئے نئے منصوبے سوچتے رہتے ہیں
میٹرو، اورنج، موٹر وے وغیرہ کے ساتھ ڈینگی کا منصوبہ بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ڈینگی کا تذکرہ الیکشن مہم کی تقاریر سے شروع ہوا اور پھر پنجاب حکومت کی منصوبہ سازی اور خدمت کا مرکزی نقطہ بن گیا اور اب ہرسرکاری دفتر کی کارکرگی رپورٹ کا حصہ بن چکا ہےکہ انہوں نے ڈینگی کے لیے کیا کیا؟ کتنے فنڈز استمعال کئے، کتنی منٹینگ کیں؟ ڈینگی کا موس آتے ہی ہر محکمہ سڑکوں پر آجا تاہے ، سپرے ہورہے ہیں، سیمینار، جلسے، ہورہے ہیں اور تو اور ٹریفک پولیس والے بھی ڈیوٹی چھوڑ کر ڈینگی ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ اور موسم کے جاتے ہی اگلے موسم کی تیاری، بجٹ، پلاننگ 
اور میںٹنگ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ پچھلے 5 سال سے جاری و ساری ہے۔



ڈینگی مہم کےلیے اربوں روپے خرچے جا چکے ہیں، سرکاری ہسپتالوں ، نجی ہسپتالوں کی شامت آئی ہوئی ہے، بینرز پر بھی ڈینگی مچھر کے ساتھ خادم اعلی کی تصاویر صوبہ بھر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ڈینگی سپرے، ڈینگی چھاپے، ڈینگی میٹنگز اب زبان زد عام ہیں، عوام کے لیے ڈینگی ایک خوف کی علامت بن گیا ہے اور لوگ ڈینگی مریض کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے پچھلے زمانے میں کوڑھ کے مریض کو دیکھتے تھے۔


مچھر اور ان سے پیدا کردہ بیماروں کا چرچا اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ۔ لوگ صدیوں سے جانتے ہیں کہ مچھر بیماریاں پھیلاتا ہے اور یہ کہ مچھر کھڑے پانی اور گندگی سے پیدا ہوتا ہےمگر پنجاب حکومت نے ڈینگی کو ایسے پیش کیا ہے کہ اب ہر اُڑنے والا کیڑا ڈینگی مچھر یا اس کا کوئی رشتہ دار لگتا ہے
سن 1920 ۔ مچھر مار مہم 

 شاید چند لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ سب سے پہلا ڈینگی کا تذکرہ سن 265 سے 420 عیسوی کے دوران چینی میڈیکل میں ملتاہے۔ سن 1906 میں پہلی دفعہ اس بیماری بارے تفصیلات عام ہوئیں اور 1907 میں اسے پیلے بخار کے بعد دوسری بیماری قرار دیا گیا جو کہ وائرس سے پھیلتی ہے
دنیا میں ڈینگی سے متاثر ممالک

ڈینگی دنیا کے بہت سے ممالک میں شدت سے پایا جاتا ہے ، ان میں سری لنکا ، بھارت، ملائیشا وغیرہ شامل ہیں، مگر ان تمام ممالک نےبہترین حکمت عملی سے اس بیماری پر قابو پایا ہوا ہے، پنجاب میں ڈینگی کی بیماری سن 2011 میں پہلی دفعہ سامنے آئی جب ہزاروں لوگ اس کا شکار ہوگئے اور تقریباً 300 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ یقیناً یہ بیماری ایک ہی دن میں نہیں بنی اور نہ ہی ایک دن میں پھیل گئی اس کے پیچھے ہماری روز مرہ زندگی کی غلطیاں ہی تھیں۔ پنجاب حکومت نے فوری رد عمل تو کیا مگر یہ درعمل جلد سیاسی بن گیا اور پنجاب حکومت نے ڈینگی کو سیاست میں شامل کرلیا

ہر سال 5 جون کو عالمی ڈینگی ڈے منایا جاتا ہے، اور دنیا کے جن ممالک میں اس بیماری کی شرح زیادہ ہے وہاں ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ اس بیماری کو ختم کیا جا سکے۔لیکن دنیا کے کسی ملک میں اس بیماری کو خوف کی علامت نہیں بنایا گیا یا دوسرے لفظوں میں اسے سیاسی بیماری نہیں بنایا گیا کہ جس کی مدد سے ووٹ کھرے کیا جاسکیں، ساری دنیا میں یہ ایک بیماری ہے اور اسے معمول کی دیکھ بھال سے اس کا علاج ممکن ہے ۔ ڈاکٹر مانتے ہیں کہ ڈینگی کے لیے علیحدہ سے کوئی ویکسین نہیں ہے بلکہ مائع کا زیادہ سے زیادہ استعمال اس بیماری میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر ڈینگی کا کوئی مریض پانی پی سکتا ہے اور پیشاب آرہا ہے تو اسے کوئی خطرہ نہیں بلکہ وہ روزانہ کی بنیا د پر ہسپتال یا کلینک کا دورہ کرکے اور اپنی پانی کی کمی کو پورا کرکے اس سے نجات حاصل کر سکتاہے لیکن جس قسم کی تشریح ہمارے ہاں ڈینگی اور اس کی بیماری کے لیے کی جاتی ہے تو سننے والا فوراً کہتا ہے ہائے اب یہ تو گیا۔۔


ڈینگی مچھر اور اس کے استقبالیہ کے لیے جو کچھ ہو چکا ہے یہ تاریخ کا سب سے سنہرا باب تصور کیا جائے گا۔ آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ ابھی تک راولپنڈی میں ڈینگی سے پاک کرنے کا کوئی منظم پلان نہیں بن سکا، کسی ہسپتال میں ڈینگی کی دوا موجود نہیں ، پنڈی میں میٹرو ٹریک ڈینگی کا سب سے بڑا مسکن بن چکا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں سپرے بھی موجود نہیں ہے، اورجہاں سپرے ہے وہاں غیر معیاری سپرے پایا جاتا ہے جس کے استعمال کے بعد وہی صورت حال پیدا ہوجائے گئی جو پچھلے دنوں مختلف سکولوں کے بچوں کے ساتھ ہوا ، محکمہ ہیلتھ کی بجائے تمام 22 محکموں کے بے ڈھنگے انداز میں انسداد ڈینگی سرچنگ میں جھونک دیا گیا ہے، گند م کی سرکاری خریداری شروع ہو چکی ہے مگر فوڈ انسپکٹر گندم خریداری کی بجائے نالہ لئی میں ڈینگی لاروا ڈھونڈ رہے ہیں، پندی کے تینوں بڑے سرکاری ہسپتالوں کے سینئر ڈاکٹرز ڈینگی مٹینگز کے بہانے غائب رہتے ہیں۔

حکومت پنجاب کو چاہیے کہ ڈینگی کو سیاست نہ بنائے اور بہترین حکمت عملی کےساتھ موثر کاروائی  کرے نہ کہ اس بیماری کو بھی کرپشن، محکمانہ نااہلی اور فنڈز کے بے جا استعمال کا موجب بنا دے




Comments

Popular posts from this blog

The Voice of Abbottabad: Ahmad Nawaz Khan Jadoon

How to develop Proposal for Golf Tournament- Sample